فروری ٢٠٢٣ سےکراچی کے شب و روز

سوچا کہ کراچی آمد کی مختصر روداد لکھوں۔۔ فروری کے آخری دنوں میں بھی میں ٹورونٹو میں مصروف رہا ایک مشاعرہ کے انعقاد میں مصروف رہا۔ ٢٥ فروری کو ٹورونٹو سے بذریعہ PIA روانہ ہوا ١٤ گھنٹے کا سفر بہت خوشگوار گزرا میری سیٹ کے اطراف کے لوگ دوست بن گیے ایرہوسٹیسیس اسٹیورڈز سب سے سروس کے دوران خوشگوار گفتگو ہوتی رہی ۔٢٦ فروری کی رات کراچی ایر پورٹ پر اترا میری بہن اختر عزیز اپنے سسرالی بھتیجے شوبی کے ساتھ ایر پورٹ پہنچیں ۔

جاری ہٕے

ڈاکٹر شہناز شورو۔

ڈاکٹر شہناز شوروایس ایم کالج کی اسسٹنٹ پروفیسر رہ چکی ہیں انھوں نے ایم اے اردو، ایم اے انگلش لثریچر ایم اے انگلش لینگویج کے علاوہ women Gender اور سوشل جسٹس پر پی۔ایچ ڈی بھی کیا ہے یہ کٸی کتابوں کی مصنفہ بھی ہیں اتنی قابلیت کے باوجود طبعیت میں سادگی اور انکساری ہے۔
مجھے اس بات پر فخر ہے کہ وہ مجھ سے نہایت احترام سے پیش آتی ہیں ایک بار جب میں کسی پروگرام میں دیر سے پہنچا تو مجھے پانی لاکر پیش کیا ۔اسی روز انھیں تقریر کرنی تھی تقریر کے بعد اسٹیج سےاتر کر سیدھا میرے پاس آٸیں اور نہایت ادب سے جھک کر مجھے سلام کیا مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے وہ میری طالبہ ھو میرے سوال کرنے پر کہ آپ میری عزت کیوں کرتی ہیں انھوں نے بتایا کہ ”سر آپ ایک استاد ہیں“۔ ۔مجھے کس قدر مان دیا میرے دل میں ان کے لیےبےپناہ شفقت ہے اور ان کی علمیت ، اور عظمت کے لیے بے حد قدر و منزلت ہے۔
بے شک وہ ایک اچھے خاندان کی دختر ہیں۔میری نیک تمناٸیں ان کے ساتھ ہیں۔

میر جاوید علی۔

میر جاوید علی میرے سگے ماموں کے صاحبزادہ ہیں.میرے سگے ماموں زاد بھائی ہیں
میری والدہ کے سگے بھانجے.
یہ Chartered. Accountant ہیں ان کی اپنی فرم ہے..
جاویدعلی مشہور تاریخی شہر اورنگ آباد میں قیام پذیر ہیں
یہ شہر. تاریخی اعتبار سےدہلی اور لاھور سے مشابہت رکھتا ھے
جاویدعلی کے والد مرحوم میر یعقوب علی اور ان کے سگے دادا میر قربان علی بچپن میں
مجھے بے انتہامحبت کرتے تھے.
(یہ بات میری والدہ بتایا کرتی تھیں )
چونکہ یہ میری والدہ کی نشانی ہے اور جن لوگوں نے مجھے چاھت دی مجھ پر ان کی محبت کا قرض ھے اور میرا فرض ھے
کہ میں عزیزالقدرمیر جاویدعلی کا آپ ے تعارف کراوں
اللہ ان کی عمر دراز کرے انہی خوشیاں عطا کرے اور آبرو مند زندگی دے.
میں ان کے لئے دعا گو ھوں